Ishq e Ali: The House of Praise
قَالَ الإِمَامُ جَعْفَرُ ب...: The House of Praise قَالَ الإِمَامُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّادِقُ : إِنَّ لِصَاحِبِ الأَمْرِ بَيْتاً يُقَالَ لَهُ: بَيْتُ الْحَمْدِ...
Sunday, February 12, 2012
Saturday, February 11, 2012
■ [ اسلام عليک يا ام ابيها يا فاطمہ زهرا ] ■
■ [ اسلام عليک يا ام ابيها يا فاطمہ زهرا ] ■
■■ 3 Jamadu'Sani ■■
■ Martyrdom of the Daughter of Prophet Mohammad s.a.w.w. ■
■■■ Hazrat Fatima Zahra s.a ■■■
NAME : Fatima(S.A)
TITLE : Zahra, Siddiqa, Tahira, Raazia, Inssiya, Batool, Marziya, Mohaddisa, Hamida, KhirunisaHadi, Umul Hassanain, Ume Abeeha & Umul Aiymma
FATHER : Hazrat Mohammed Mustufa (SAWW) - (Prophet)
MOTHER : Hazrat Bibi Khatija Kubra (swa)
BIRTH DATE : Friday 20th Jamadi-us-Sani
AGE : 18 Years
DIED ON : 3rd Jamadi-us-Sani
DEATH PLACE : Medina
HOLY SHRINE : Janaat-ul-Baqi Birth Fatimah, the only daughter of the Holy
████████████████████████████████████████ ██████
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
•••••••••••••• لعن الله قاتلي فاطمة الزهراء عليها السلام ••••••••••••••
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
████████████████████████████████████████ ██████
Friday, February 10, 2012
Thursday, February 9, 2012
ღ▬ღ Jashan e Wiladat e Hazrat Imam Mohammad Baqar a.s ღ▬ღ
السلام على الإمام محمد بن علي الباقر عليه السَّلام
■■ 1st Rajab ■■
■ Birth of the 5th Holy Imam ■
■■■ Hazrat Imam Mohammad Baqar a.s ■■■
ღ▬ღ Jashan e Wiladat e Hazrat Imam Mohammad Baqar a.s ღ▬ღ
♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥
Name : Mohammad (a.s.) - the 5th Holy Imam
Title : Baqir-ul-Uloom, Shakir, Hadi
Kuniyat : Abu-Jaffer
Father : Imam Sajjad(a.s.) - the 4th Holy Imam
Mother : Bibi Fatima bint-e-Imam Hasan(a.s.)
Birth : 1st of Rajab 57 AH (675 AD) at Madina
Martyrdom :In Madina at age 57, on 7th Zil-Hijjah 114 AH (732 AD)
Cause of Death/Burial : Poisoned by Ibrahim bin Walid on the orders of Hashsham bin Abdul Malik
No. of children: 5 Sons and 6 Daughters
♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥
████████████████████████████████████████ ██████
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
♥♥ Baqir ka chehra dekh k kehtay hain Ahl e Dil ♥♥
♥♥ Pehli rajab ko dekh liya chodween ka chand ♥♥
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
████████████████████████████████████████ ██████
Sunday, February 5, 2012
The House of Praise
The House of Praise
قَالَ الإِمَامُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّادِقُ : إِنَّ لِصَاحِبِ الأَمْرِ بَيْتاً يُقَالَ لَهُ: بَيْتُ الْحَمْدِ. فِيهِ سِرَاجٌ يَزْهَرُ مُنْذُ يَوْمٍ وُلِدَ إِلـى يَوْمٍ يَقُومُ بِالسَّيْفِ لاَ يُطْفـى.
Imam Ja’far ibn Muhammad as-Sadiq (peace be upon both of them) said: “Indeed the possessor of the command [ Imam al'Mahdi (a.s.) ajtfs ]has a house which is referred to as, ‘The House of Praise’. In this house there is a lamp which has been glowing since the day he was born and will continue to do so until the day he makes his advent with the sword, and it will not be put out.”
Biharul Anwar, Volume 52, Page 158; al-Ghaybah of al-Nu’mani
قَالَ الإِمَامُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّادِقُ : إِنَّ لِصَاحِبِ الأَمْرِ بَيْتاً يُقَالَ لَهُ: بَيْتُ الْحَمْدِ. فِيهِ سِرَاجٌ يَزْهَرُ مُنْذُ يَوْمٍ وُلِدَ إِلـى يَوْمٍ يَقُومُ بِالسَّيْفِ لاَ يُطْفـى.
Imam Ja’far ibn Muhammad as-Sadiq (peace be upon both of them) said: “Indeed the possessor of the command [ Imam al'Mahdi (a.s.) ajtfs ]has a house which is referred to as, ‘The House of Praise’. In this house there is a lamp which has been glowing since the day he was born and will continue to do so until the day he makes his advent with the sword, and it will not be put out.”
Biharul Anwar, Volume 52, Page 158; al-Ghaybah of al-Nu’mani
Friday, February 3, 2012
درس کربلا
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
درس کربلا
محرم و صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی غم و اندوہ پر مبنی ثقافتی رسموں کا اجراء اور ان میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرنا جہاں ثواب کے حصول کا ذریعہ ہے وہیں محرم و صفر کربلا کے واقعے اور اس سے متصل مزید واقعات کو ہمارے لئے درس کے عنوان سے بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ دروس ہیں جو نہ صرف علمی و فلسفی گفتگو کا ہی محور نہیں ہوتے بلکہ زندگی انسانی کیلئے آب حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔
کربلا جہاں ہمیں ظالم و فطرت ناشناس افراد سے ٹکراجانے کا درس دیتی ہے، جہاں سیاسی حلقوں کے ظلم و استبداد و غیر عادلانہ و اقربا پروری و ناجائز پشت پناہی کی نفی کرتی نظر آتی ہے وہیں کربلا ہم کو ثقافتی، علمی، معاشرتی و معاشی مسائل سے نکال کر غَنا وسائل اُخروی بھی عطا کرتی ہے۔ ہم کو سیاسی ناجائز مفاد پرستوں کے اصلاح کی طرف راغب کرتی ہے۔ یہ دروس کربلا جن کی بنیاد علم و عقل و عقیدۂ سلیم ہے، اور اسی علم وفکر و عقیدۂ سلیم کی بنیاد پر جب ایک صالح و سالم ثقافت معاشرے کی روح بن جاتی ہے تو صالح کردار افراد کے گروہوں میں جب نابغہ روزگار صالح و عادل و بالغ ذہن سیاست میں آتے ہیں تو معاشی نظام ھائے مملکت و ثقافت و معاشرتی محافل میں منطقی عقیدت و صالح اقدامات و اعمال نظر آتے ہیں جو نہ صرف فرد کی ایک نہ تمام ہونے والے تربیتی نظام کا حصہ ہیں بلکہ اس سے پورا معاشرۂ انسانی ایک تربیت کے مرحلے سے گزرتا ہے۔
کربلا کے واقعے اور اس واقعے سے منسلک یعنی مدینہ سے لیکر مکہ، کربلا اور پھر شام اور پھر مدینہ کے جو واقعات ہمیں درس دیتے ہیں ان میں صرف فکری و نظریاتی آزادی کا پیغام ہی نہیں ہے بلکہ ان دنیاوی نظاموں و سسٹمز کو بھی فطری قوانین کے تحت آزادی عطا کرتے ہیں جن میں ثقافتی اعمال و روایات جو صرف محرم و صفر کے مہینوں سے مخصوص نہیں بلکہ کل یوم عاشورا کل ارض کربلا کے توجیہہ کے مصداق یہ باتیں جیسے شہادت سے والہانہ عشق و محبت یعنی مثبتات کے اجراء و رواج کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہ کرنا اور تاقیامت رہنے والی ایک اصلاحی تحریک ہے جو ہر دور میں منفیات کو شکست و مثبتات کو سرخرو کرتی رہے گی۔ ایک تربیتی پہلو جو کربلا کے واقعے سے ملتا ہے وہ نہ صرف تربیتی ہے بلکہ علمی و فلسفی بھی ہےیعنی آئمہ علیھم السلام کے خطبات و ثانی زہرا سلام اللہ علیہا کے خطابات ہیں جو ایک طرف تو فکری و بلاغتی علوم میں شاہکار ہیں بلکہ ان سے گمراہ افراد کی تربیت بھی مقصود ہے۔ خود اس واقعہ کربلا میں امام کی نصرت کی خاطر اصحابِ امام (ع) و اہل حرم کا صعوبتیں جھیلنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ان سب کی تربیت ایک ہی سانچے میں ہوئی ہے۔ کسی تکلیف و مصیبت پر اگر اظہار اذیت ہے بھی تو وہ اذیت اس مصیبت کی نہیں بلکہ اسلام کا نعرہ لگانے والے اور رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی کہلوانے والے اور ان کی نیابت کا کا کھوکھلا دعویٰ کرنے والے ایک ایسے منافق و کافر قلب و ذہن کو معاشرہ و تاریخِ انسانیت میں رسوا کرنا ہے اور حق جو فطرت کو سیاسی حوالے سے درس دینا ہے کہ ایسے بے ضمیر انسانوں سے کس طرح مکتب سلامتی و امن و آشتی کو محفوظ رکھاجائے۔
درس کربلا
محرم و صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی غم و اندوہ پر مبنی ثقافتی رسموں کا اجراء اور ان میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرنا جہاں ثواب کے حصول کا ذریعہ ہے وہیں محرم و صفر کربلا کے واقعے اور اس سے متصل مزید واقعات کو ہمارے لئے درس کے عنوان سے بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ دروس ہیں جو نہ صرف علمی و فلسفی گفتگو کا ہی محور نہیں ہوتے بلکہ زندگی انسانی کیلئے آب حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔
کربلا جہاں ہمیں ظالم و فطرت ناشناس افراد سے ٹکراجانے کا درس دیتی ہے، جہاں سیاسی حلقوں کے ظلم و استبداد و غیر عادلانہ و اقربا پروری و ناجائز پشت پناہی کی نفی کرتی نظر آتی ہے وہیں کربلا ہم کو ثقافتی، علمی، معاشرتی و معاشی مسائل سے نکال کر غَنا وسائل اُخروی بھی عطا کرتی ہے۔ ہم کو سیاسی ناجائز مفاد پرستوں کے اصلاح کی طرف راغب کرتی ہے۔ یہ دروس کربلا جن کی بنیاد علم و عقل و عقیدۂ سلیم ہے، اور اسی علم وفکر و عقیدۂ سلیم کی بنیاد پر جب ایک صالح و سالم ثقافت معاشرے کی روح بن جاتی ہے تو صالح کردار افراد کے گروہوں میں جب نابغہ روزگار صالح و عادل و بالغ ذہن سیاست میں آتے ہیں تو معاشی نظام ھائے مملکت و ثقافت و معاشرتی محافل میں منطقی عقیدت و صالح اقدامات و اعمال نظر آتے ہیں جو نہ صرف فرد کی ایک نہ تمام ہونے والے تربیتی نظام کا حصہ ہیں بلکہ اس سے پورا معاشرۂ انسانی ایک تربیت کے مرحلے سے گزرتا ہے۔
کربلا کے واقعے اور اس واقعے سے منسلک یعنی مدینہ سے لیکر مکہ، کربلا اور پھر شام اور پھر مدینہ کے جو واقعات ہمیں درس دیتے ہیں ان میں صرف فکری و نظریاتی آزادی کا پیغام ہی نہیں ہے بلکہ ان دنیاوی نظاموں و سسٹمز کو بھی فطری قوانین کے تحت آزادی عطا کرتے ہیں جن میں ثقافتی اعمال و روایات جو صرف محرم و صفر کے مہینوں سے مخصوص نہیں بلکہ کل یوم عاشورا کل ارض کربلا کے توجیہہ کے مصداق یہ باتیں جیسے شہادت سے والہانہ عشق و محبت یعنی مثبتات کے اجراء و رواج کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہ کرنا اور تاقیامت رہنے والی ایک اصلاحی تحریک ہے جو ہر دور میں منفیات کو شکست و مثبتات کو سرخرو کرتی رہے گی۔ ایک تربیتی پہلو جو کربلا کے واقعے سے ملتا ہے وہ نہ صرف تربیتی ہے بلکہ علمی و فلسفی بھی ہےیعنی آئمہ علیھم السلام کے خطبات و ثانی زہرا سلام اللہ علیہا کے خطابات ہیں جو ایک طرف تو فکری و بلاغتی علوم میں شاہکار ہیں بلکہ ان سے گمراہ افراد کی تربیت بھی مقصود ہے۔ خود اس واقعہ کربلا میں امام کی نصرت کی خاطر اصحابِ امام (ع) و اہل حرم کا صعوبتیں جھیلنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ان سب کی تربیت ایک ہی سانچے میں ہوئی ہے۔ کسی تکلیف و مصیبت پر اگر اظہار اذیت ہے بھی تو وہ اذیت اس مصیبت کی نہیں بلکہ اسلام کا نعرہ لگانے والے اور رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی کہلوانے والے اور ان کی نیابت کا کا کھوکھلا دعویٰ کرنے والے ایک ایسے منافق و کافر قلب و ذہن کو معاشرہ و تاریخِ انسانیت میں رسوا کرنا ہے اور حق جو فطرت کو سیاسی حوالے سے درس دینا ہے کہ ایسے بے ضمیر انسانوں سے کس طرح مکتب سلامتی و امن و آشتی کو محفوظ رکھاجائے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)