Friday, February 3, 2012

درس کربلا

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
درس کربلا
محرم و صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی غم و اندوہ پر مبنی ثقافتی رسموں کا اجراء اور ان میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرنا جہاں ثواب کے حصول کا ذریعہ ہے وہیں محرم و صفر کربلا کے واقعے اور اس سے متصل مزید واقعات کو ہمارے لئے درس کے عنوان سے بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ دروس ہیں جو نہ صرف علمی و فلسفی گفتگو کا ہی محور نہیں ہوتے بلکہ زندگی انسانی کیلئے آب حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔
کربلا جہاں ہمیں ظالم و فطرت ناشناس افراد سے ٹکراجانے کا درس دیتی ہے، جہاں سیاسی حلقوں کے ظلم و استبداد و غیر عادلانہ و اقربا پروری و ناجائز پشت پناہی کی نفی کرتی نظر آتی ہے وہیں کربلا ہم کو ثقافتی، علمی، معاشرتی و معاشی مسائل سے نکال کر غَنا وسائل اُخروی بھی عطا کرتی ہے۔ ہم کو سیاسی ناجائز مفاد پرستوں کے اصلاح کی طرف راغب کرتی ہے۔ یہ دروس کربلا جن کی بنیاد علم و عقل و عقیدۂ سلیم ہے، اور اسی علم وفکر و عقیدۂ سلیم کی بنیاد پر جب ایک صالح و سالم ثقافت معاشرے کی روح بن جاتی ہے تو صالح کردار افراد کے گروہوں میں جب نابغہ روزگار صالح و عادل و بالغ ذہن سیاست میں آتے ہیں تو معاشی نظام ھائے مملکت و ثقافت و معاشرتی محافل میں منطقی عقیدت و صالح اقدامات و اعمال نظر آتے ہیں جو نہ صرف فرد کی ایک نہ تمام ہونے والے تربیتی نظام کا حصہ ہیں بلکہ اس سے پورا معاشرۂ انسانی ایک تربیت کے مرحلے سے گزرتا ہے۔
کربلا کے واقعے اور اس واقعے سے منسلک یعنی مدینہ سے لیکر مکہ، کربلا اور پھر شام اور پھر مدینہ کے جو واقعات ہمیں درس دیتے ہیں ان میں صرف فکری و نظریاتی آزادی کا پیغام ہی نہیں ہے بلکہ ان دنیاوی نظاموں و سسٹمز کو بھی فطری قوانین کے تحت آزادی عطا کرتے ہیں جن میں ثقافتی اعمال و روایات جو صرف محرم و صفر کے مہینوں سے مخصوص نہیں بلکہ کل یوم عاشورا کل ارض کربلا کے توجیہہ کے مصداق یہ باتیں جیسے شہادت سے والہانہ عشق و محبت یعنی مثبتات کے اجراء و رواج کی خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہ کرنا اور تاقیامت رہنے والی ایک اصلاحی تحریک ہے جو ہر دور میں منفیات کو شکست و مثبتات کو سرخرو کرتی رہے گی۔ ایک تربیتی پہلو جو کربلا کے واقعے سے ملتا ہے وہ نہ صرف تربیتی ہے بلکہ علمی و فلسفی بھی ہےیعنی آئمہ علیھم السلام کے خطبات و ثانی زہرا سلام اللہ علیہا کے خطابات ہیں جو ایک طرف تو فکری و بلاغتی علوم میں شاہکار ہیں بلکہ ان سے گمراہ افراد کی تربیت بھی مقصود ہے۔ خود اس واقعہ کربلا میں امام کی نصرت کی خاطر اصحابِ امام (ع) و اہل حرم کا صعوبتیں جھیلنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ان سب کی تربیت ایک ہی سانچے میں ہوئی ہے۔ کسی تکلیف و مصیبت پر اگر اظہار اذیت ہے بھی تو وہ اذیت اس مصیبت کی نہیں بلکہ اسلام کا نعرہ لگانے والے اور رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی کہلوانے والے اور ان کی نیابت کا کا کھوکھلا دعویٰ کرنے والے ایک ایسے منافق و کافر قلب و ذہن کو معاشرہ و تاریخِ انسانیت میں رسوا کرنا ہے اور حق جو فطرت کو سیاسی حوالے سے درس دینا ہے کہ ایسے بے ضمیر انسانوں سے کس طرح مکتب سلامتی و امن و آشتی کو محفوظ رکھاجائے۔

ایک اور درس جو ہمیں آج کے زمانے یعنی امام زمانہ (ارواح لنا فدا) کے زمانے کیلئے کربلا کے واقعہ سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ نصرت امام کیلئے ہمارے عقائد کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں ہمارے پاس صالح و پختہ ایمان کے ساتھ بہترین صلاحیتیں بھی ہونی چاہیے ہیں۔ جو دشمن کے ساتھ مقابلے میں ہر طرح کے میدان میں ہمارا ہتھیار ہوں۔ چاہے جنگ کا میدان تلوار کا ہوتو تلوار بازی کا ہنر، اگر میڈیا و ثقافتی جنگ کی بات ہو تو میڈیا کا ہتھیار اور اگر علمی برتری کی میدان ہو تو مسلمان اس میدان میں بھی سرخرو ہو، اگر میدان اقتصادی ہو تو پھر اقتصادی ماہرین ہونے چاہیے ہیں۔
اگر دشمن اپنے تعلقات پر اکڑتا ہے تو ہماری بھی پی –آر اور معاشرتی روابط اتنے زیادہ ہونے چاہیے ہیں کہ ہم ہر بیدار ضمیر انسان کو اپنے مقصد یعنی ان اصول ھائے فطرت پر جمع کرسکیں جس سے انسانیت فلاح و تکامل کی منزل پاتی ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے غیر کی زمین پر موت کو قبول نہ کرکے اور کربلا کی زمین کو خرید کر ہبہ کرکے اقتصادی آزادی اور ظالم و ریشہ دوان کو رہتی دنیا میں دکھا دیا کہ کون حملہ آور ہے اور کون مظلوم اور ساتھ ہی اقتصادی غیرت و حمیت کی بھی مثال دنیا کے غیرت مندوں کے سامنے رکھ دی جو دوسروں کے مال پر اکڑ نا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔
کربلا ایک طرف جہاں نالائق افراد کی سرپرستی کو معاشرے کیلئے ناسور جانتی ہے وہیں اھل افراد کے ساتھ چلنے اور ان کی پیروی کی تہذیب و آداب سے بھی روشناس کراتی ہے۔
غرض واقعات کربلا عشق خدا کے ایسے نمونے ہیں کہ ہم کو بھی اپنی استظاعت کے مطابق مخلوق خدا کی بہتری و فلاح ِ روحانی و مادی کیلئے جو نظام و اصول خدا نے فلاح ِ انسانیت کیلئے بھیجے ہیں انہیں روبہ عمل لائیں تاکہ ہم اس کرہ زمین کو عدل و انصاف، امن و آشتی، پیار و محبت و اخوت و بھائی چارہ میں ڈھال سکیں اور سیرت امام حسین علیہ الصلواتہ والسلام یا اصحاب حُسین(ع) پر چلتے ہوئے اپنے اخلاقی کردار کے ساتھ اپنے خدماتی کارناموں میں اضافہ کریں کہ امامِ زمانہ (عج) کی خوشنودی و ان کے فدا کار سپاہی قرار پاکر اس دنیا پر سلامتی و امن کا پرچم لہرائیں۔ انشاءاللہ المستعان
تحریر: سید جہانزیب عابدی
شب عاشور/ ۱۴۳۳ھ

No comments:

Post a Comment